زنا جرم یا گناہِ کبیرہ!!

 زنا ایک ایسا فعل جس کی معافی بھی ممکن نہیں ہے۔

’’زنا ایک قرض ہے۔لہذا جو یہ قرض لیتا ہے اُس کے گھر والوں کو وہ قرض اترنا ہوتا ہے‘‘

ایک بچّہ جب دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو مان باپ ہزاروں خواب اُسکے ساتھ منسلک کر دیتے ہیں ۔دن گذرنے کے ساتھ ساتھ خواب بڑھتے جاتے ہیں اور پھر ایک ایسا بھی وقت آتا ہے جب ماں باپ کے ساتھ بچّے کے خواب بھی شامل ہوجاتے ہیں۔

ہر ماں باپ کی کوشش ہوتی ہے  کہ اپنی اولاد کو ایک بہترین مستقبل دیں،ایک کامیاب زندگی۔جس میں وہ آگے بڑھے اور کامیابی حاصل کر سکے۔

یہ دنیا تو اللہ پاک نے انسانوں کے رہنے کے لیے بنائی تھی۔پھر یہ جنگلی جانوروں سے بدتر انسان نما جانور کہاں سے آگئے ہیں۔جب دیکھو ایسی خبریں کہ پڑھ کر،سن کر روح بھی کانپ جائے اور لوگ ایسی درندگی کرتے ہیں تو ان کا دل اور ہاتھ بھی نہیں کانپتے؟

سوچنا یہ ہے کہ یہاں غلطی کس کی ہے؟معاشرے کی؟لوگوں کی؟یا پھر ایسے ماحول کی جس میں آج ہر برائی با آسانی لوگوں کی دسترس میں ہے۔

ہمیں کب ہوش آئے گا جب ہمارا حال موہن جو ڈاڑو والا ہوجائے گا ۔کیونکہ  اللہ کا ارشاد ہے کہ،

’’جب جب زمین پر ایسے گناہ بڑھیں گے تو زمین پلٹ دی جائے گی اور سخت 

عذاب دیا جائے گا۔‘‘


کیا اکتوبر 2005 کو آنے والا زلزلہ تھم گیا ہے؟؟- خبریں پاکستان - تسنیم نیوز  ایجنسی

یہ کیسے آدم خور لوگ ہیں جو بچّیوں کو عورتوں کو اپنا مال سمجھتے ہیں۔انھیں یہ خیال بھی نہیں آتا کہ ایسا ایک رشتہ میرے گھر پر بھی موجود ہے؟

چھ ماہ میں ملک میں بچوں کے ریپ اور قتل کے ۷۸۶ واقعات سامنے آچکے ہیں ۔یہ وہ واقعات ہیں جو درج ہوئے ہیں اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ کتنے واقعات ہیں جو رسوائی کے ڈر سے درج ہی نہیں ہوئے ہوں گے۔`

سانحہ لاہور نے میری نیندیں اڑا کر رکھ دیں۔ابھی معصوم بچّیوں کا غم ہی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا اور پھر ایسی درندگی سرِ راہ انجام دے دی گئی۔ زناشرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور اسلام میں اس کے مرتکب کے لیے سخت سزائیں متعین کی گئی ہیں۔

قرآن پاک میں جا بجا ارشاد ہوا ہے کہ ’’ایسے فعل سے دور رہو جس کی معافی ممکن نہیں ہے۔‘‘


کبھی کبھی مجھے یہ سوچ کر شرمندگی ہوتی ہے کہ میں ایک  ایسے اسلامی معاشرے میں میں زندہ ہوں جہاں چند لوگ بظاہر مسلمان کہلاتے ہیں مگر اپنی حرکات سے شیطان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اپنی ہر حرکت کو شیطان کے نام سے منسوب کرکے انسان اپنے آپ کو الگ کرنے کی کوشش میں لگا ہے۔کیا وہ نہیں جانتا کہ جب حساب کتاب کا دن آئے گا تو اُس کے تمام اعمال کی سزا بھی اُسی کو ملے گی۔

نبی کریمؐ کے دورِ حکومت اور خلیفہ راشدین کے دور میں خواتین جنگوں میں حصّہ لیتیں ۔اسلام کی اشاعت اور سر بلندی کے لیے ہمیشہ آگے رہتیں۔ہم اسی معاشرے کے لوگ ہیں پھر یہاں خواتیں،بچیاں اور لڑکیاں کیوں محفوظ نہیں ہیں؟

سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایسے لوگ کہاں ہیں؟ کہاں سے آرہے ہیں؟کون ہے انکا ذمہ دار؟کیونکہ والدین تو اپنی اولاد کو یہ سب نہیں سکھاتے پھر کیا وجہ ہے؟

ایسے لوگ جو رشوت لیتے  اور دیتے ہیں کمائی میں حرام کمائی شامل ہے اور اسِ پر کوئی

شر مندگی  بھی نہیں ہے۔بڑے بڑے اور اُونچے گھر،مہنگی گاڑیوں کی قطار ،ہر برائی کو اچھائی  سمجھ  کر گذارنے والے اعمال شاید یہ بھی وہ وجوہات ہیں جہاں ایسےلوگ پرورش پاتے ہیں۔حد سے زیادہ دولت بچّوں سے لا علمی انسان کو وہاں لے آتی ہے جہاں واپسی کا راستہ مشکل سے ہی ملتا ہے۔


bribing season 3 GIF by NETFLIX

کیا حل ہے انِ سب باتوں کا ؟کیا سرِ راہ ان کو مارا جائے؟پھانسی دے دی جائے؟قتل کر دیا جائے؟دھرنے دیئے جائیں؟کیا ان سب سے یہ حالات ختم ہو جائیں  گے؟بے شک !کیونکہ اگر ایک کسی بھی ایسے درندے کو سرِ راہ خوفناک سزا دی جائے تو وہ شاید عبرت کا نشان بن جائے۔

مگر میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب ذمہ داری حکومت کی ہی ہے ؟ کیا ہمارا کوئی فرض نہیں؟ٹیوی پر چینل چلتے رہیں گے ایک پارٹی دوسرے پر اور دوسری پارٹی تیسرے پر الزام لگاتی رہیں گی۔کچھ بدلنے والا نہیں۔بڑے بڑے سیاسی جماعت کے لوگ اور اُن کی اولادیں جرم کرتی ہیں اور سر اٹھا کے زندگی گذارتی بھی نظر آتی ہیں۔

اب یہاں ذمہ داری والدین کو اٹھانی ہے۔کیوں والدین یہ نہیں جان پاتے کہ اُن کے بچّے کسِ راستے پر چل پڑے ہیں۔وہ کیوں نہیں روک پاتے؟آج ہم سب کا فرض ہے کہ اگر ہماری اولاد سے بھی ایسے گناہ سرزد ہوئے ہیں تو انھیں سرِ راہ لا کر  سخت سے سخت سزا دی جائے،کیونکہ ایسے گناہ کے مرتکب لوگوں کے والدین اگر انھیں خبر ہے اولاد کے گناہ کی تو وہ بھی شامل گناہ کہلائیں گے۔

’’لڑکیوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ لڑکوں کی تربیت پر بھی خاص توجہ دی جائے ۔اللہ نے انھیں نعمت قرار دیا ہے تو انھیں نعمت ہی رہنے دیں کسی کے لیے زحمت نا بنائیں۔‘‘

کب تک زینب اور اسِ جیسی بچیاں ایسے واقعات کا شکار ہوتی رہیں گی؟کب ک خواتین ،لڑکیاں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھیں گی؟کب اسِ معاشرے کو خلیفہ راشدین جیسے حکمران ملیں گے؟

Page Greetings GIF

اے اللہ تو ہی بہتر راستہ نکالنے والا ہے ۔تو ہی ہم سب کا مالک ہے۔اے مالک ہمارے معصوم بچّوں کی ،عورتوں کی ،مردوں کی ایسے درندوں سے حفاظت فرما اور ایسے تمام سوچ رکھنے والوں کو نسیت و نابود کردے۔آمین۔



تبصرے

  1. جب تکان احکام کی توفیق نہیں ہوگی جو اللہ اور ھمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماۓ ہیںں تب تک معاشرے کی اصلاح کا سوچنا عبث ہے۔۔۔ہر جرم میں 99٪ قصور برے آدمی کا ھوتا ہے تو 1٪ مشکل سہنے والے کا بھی ہوتا ہے ۔۔۔اور وہ ایک پر سنٹ چھو ٹی سی گولی کا کام کرتا ہے جو زہر کی گولی کی طرح ہوتی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. شکریہ مدیحہ حسن آپ لوگوں کی رائے میرے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔
    دوسرے تبصرے کے لیے محترم یا محترمہ شکریہ !! آپ نے بالکل بجا فرمایا ایک پرسنٹ لوگ اگر آج جاگ جائیں تو کیا مجال ہے کہ برائی کا خاتمہ ممکن نا بنا سکیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. یہ زندگی کا ایک بد صورت چہرہ ہے جس کا سامنا کرنے پر ہمیں مجبور کردیا جاتا ہے کیونکہ ہم اس بدصورتی سے بھاگتے ہیں مگر اس کو جڑ سے اکھاڑنے کی ہمت نہیں رکھتے ممتاز مفتی نے علی پور کا ایلی میں ایسی ہی بدصورتی کا چہرہ وا کیا ہے۔اور منٹو جس نے حقیقت کو ویسا ہی دکھایا جیسی وہ تھی تب اس پر فحش گوئی کے فتوے لگا کر معاشرے کو ایک ایسی راہ پر گامزن کر دیا گیا جس کی آگ آج ہم سب کو جھلسا رہی ہے اور معاشرے کے ٹھیکیدار لباس اور مخلوط تعلیمی نظام کو مورد الزام ٹھہرا کر بری الذمہ ہوگئے۔اس گندگی کی جڑیں بہت گہری ہیں لہذا گند کو گند پکارنا بہت ضروری ہے۔منافقت کا چہرہ وا کرنا بہت ضروری ہے ۔ اور اسلام نے جو اصول فطرت واضح کیے اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تم ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہو گے۔۔