ماں!!
میری امی
میری زندگی کا ایک ایسا دن جس نے میری زندگی کی کایا پلٹ دی،بقول شاعر
بات
نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
مگر میں یہاں اپنی
بات کو مختصر بیان کرنے کی پوری کوشش کروں گی۔
عورت صنفِ نازک ،چھوئی موئی ،پیار کی دیوی ایسی
کتابیں باتیں بچپن میں بہت سنا کرتی تھی۔لڑکی یہ نہیں کرسکتی ،لڑکی وہ نہیں کرسکتی
۔اکثر امّی سے سوال کرتی کیوں ؟مگر وہاں صرف ایک مسکراہٹ اور ایک جواب ہمیشہ کی
طرح ملتا ’’بیٹا یہ سچ بھی ہے اور نہیں بھی،جب وقت آتا ہے تو ایک عورت مرد بھی بن
جاتی ہے۔‘‘ امی کی ایسی باتیں
سنکر مجھے غالب بہت یاد آتے تھے،
مشکلیں
اتنی پڑیں کہ آسان ہو گئیں
میں ہنستی پتہ
نہیں امی ایسی باتیں کہاں کہاں سے لاتی ہیں۔ایک عورت کیسے کئی امور انجام دے سکتی ہے باوجود اِس کے
کہ اپنے گھر میں ایک مثال جیتی جاگتی مثال سامنے تھی۔زندگی آگے بڑھی اور ذمہ
داریاں بڑھنے کے باوجو میں امی نا بن سکی جو ہر کام باآسانی کرجاتی تھیں ۔ایک وقت
میں کئی محاز میں مسکراتی ہوئی نظر آتیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا
۔جنوری ۷ ۲۰۱۱ ،میری نئی نوکری بیکن ہاؤس میں شروع ہوئی تھی اور امی فالج
کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہوئیں ۔اُس دن احساس ہوا ایک بہن اگر اور ہوتی تو شاید
زندگی آسان ہوتی ۔کیا کروں کیا نا کروں ۔لیاقت نیشنل میں آئی سی یو میں امی اور
صبح کی فکر ۔بات نوکری کی نہیں تھی بات تھی اپنے بچّوں کی اعلیٰ تعلیم ایک کامیاب متقبل کی ۔خود غرضی
انسان کا حصّہ ہے ۔مگر فیصلہ امی کے حق میں کیا سوچا نوکری چحور دیتی ہوں بعد میں
نصیب میں ہوا تو مل جائے گی۔دوسرے دن امی کو
ہوش آگیا ۔پوچھا تم اسکول گئیں تھیں ۔نہیں جواب پر پھر مسکرائیں اور کہا
کہ’’تم پوچھتی تھیں نا میں سب الگ الگ کام کیسے کر لیتی ہوں اب وہ وقت آگیا تم مجھ
سے زیادہ اور اچھا کام کر سکتی ہو۔‘‘سوچا
طبیعت کا اثر ہے اسی لیے ایسی باتیں کر رہی ہیں۔بولیں’’ہمیشہ ہمت رکھو،ایمانداری
رکھو اور ڈٹ جاؤ،پھر دیکھو مشکل مشکل نا رہے گی ‘‘میں نے جی کہا ۔انکا ہاتھ میرے
ہاتھ میں تھا ۔شام تک وہ کوما میں چلی گئیں۔
۱۵ دن لیاقت
نیشنل کے میں ساری زندگی بھول نہیں پاؤں گی ۔جب مجھے اپنے گھر،بچوں کسی کا خیال
نہین تھا۔پوری رات جاگنا ،صبح اسکول جانا،وہاں سے کاپیوں کے انبار لانا اور ویٹنگ
روم میں چیکینگ کرنا اور امی کے ساتھ رہنا ۔اآن پندرہ دنوں نے سارہ کے وجود کو بدل
دیا۔رات کی نیند چھوڑنا جو کبھی سوچا نا تھا ۱۵ دن مسلسل نا سونے کے باوجود نیند
کا نا آنا عجب ہی تھا۔ اسپتال اور
اسکول یہ سلسلہ چلتا رہا اور ۲۱ جنوری ۲۰۱۱ جمعہ کے دن جہاں میں انُ کی زندگی کی دعا کر رہی تھی وہیں
انھیں اپنے سامنے جاتا دیکھ رہی تھی ۔ایک ایک لمحہ دل،دماغ کے خاتمے کو دیکھ رہی
تھی ۔انسان کی بے بسی اور اللہ کے حکم ِ الہیٰ کو دیکھ رہی تھی ور پھر امی چلی
گئیں۔ آنکھیں پھر بھی خشک تھیں ۔کیا میں
خودغرض تھی ؟ ۔آج بھی سوچتی ہوں کیسے تو سمجھ نہیں آتا۔امی کی روانگی کے سارے
فرائض اپنے ہاتھ سے انجام دیئے۔انکی روانگی کے بعد جب میں رات میں لیٹی تو لگا کہ
امی کی گود میں سر ہے اور انکا ہاتھ مجھ پر۔ پوری رات دو ہاتھ مجھ پر احاطہ کیے
ہوئے تھے۔ایسا سوئی کہ فجر میں آنکھ کھلی نماز کے بعد جو روئی تو آج تک آنکھیں نم
ہیں۔امی کی آواز اور الفاظ آج تک ذہن میں محفوظ ہیں۔
زندگی اسی چیز کا نام ہے۔ آپ کی امی نے درست کہا ڈٹ جاؤ اور پیچھے پلٹ کے مت دیکھو۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے میں نے اللہ کو اپنے ارادے کی شکست سے پہچانا ہے۔ سو ہمیں بھی اپنی ناکامیوں اور مشکلات پر آنسو بہانے کے بجائے آگے بڑھنا چاہیئے ہے اللہ نے اس سے کہیں بہتر ہمارے لئے رکھا ہوا ہے بس بڑھ کے آگے اسے پکڑنا ہے
جواب دیںحذف کریں